مظلومِ مدینہ

"مظلومِ مدینہ"


کچھ غیر روایتی سی تحریر لکھنا چاہ رہی ہوں. فضائلِ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کیا ہیں اس سے شاید مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے. سخی تھے. غنی تھے. پیاسوں کو سیراب کرتے تھے. مالِ تجارت سے بھرے اونٹ صدقہ کردیتے تھے. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ان کی شادی عثمان سے کرتا. وہ دو نور والے، وہ صابر، عاشقِ رسول ہمارے مظلومِ مدینہ.

شروعات کرتے ہیں بیعت رضوان سے.

اللہ تعالیٰ سورہ فتح میں فرماتے ہیں؛
 لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ.
  ’’ بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے.‘‘ 

ان آیات کا شانِ نزول؛ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خواب دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں. ظاہر ہے نبی کا خواب وحی اور اذنِ الہی ہوتا ہے. چودہ سو صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ عمرے کی غرض سے ساتھ چل پڑے. حدیبیہ کے مقام پہ اونٹنی رک گئی. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اشارہ غیبی سمجھ کر وہیں قیام فرمایا. قریش کو پتا چلا تو انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کردی. نبی کریم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکہ بھیجا. وجہ یہ کہ وہ خانوادہ رسول سے تھے. سرکار دو عالم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو شہزادیاں ان سے بیاہی تھیں. اس کے علاوہ قریش کے ایک بااثر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے. اموی تھے. مکے میں کوئی انہیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.
ذوالنورین مکے پہنچے اور انہیں پیغام دیا کہ سرکار دو عالم صرف عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے آئے ہیں.

قریش نے یہ فیصلہ سنایا کہ اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم واپس چلے جائیں اور اگلے سال عمرے کے لیے تشریف لائیں. ساتھ ہی انہوں نے عثمان غنی سے کہا کہ چاہیں تو طواف خانہ کعبہ کا کرلیں. لیکن عاشق رسول اپنے سرکار سے پہلے یہ سعادت کیسے حاصل کرتے. انہوں نے کہا کہ ایسا کیسا ہوسکتا ہے کہ میں رسول اللہ کے بغیر طواف کرلوں. انہوں نے مکے کے غریب اور مظلوم مسلمانوں سے بھی ملاقات کی اور انہیں جلد ہی فتح مکہ کی بشارت دی. 

قریش نے عثمان غنی کو روک لیا اور مسلمانوں میں یہ بات پھیل گئی کہ عثمان شہید کر دییے گئے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے عثمان غنی کی شہادت کا بدلہ لینے کی بیعت لی. چودہ سو مسلمانوں نے بیعت کی. یہ بیعت ایک خاردار درخت کے نیچے ہوئی جسے "سَمُرہ" کہتے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہاتھ عثمان کا ہے. اور پھر دعا فرمائی؛ 
یا رب عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام میں ہیں. 

یہاں میں پڑھنے والوں سے سوال کروں گی کیا نعوز باللہ اللہ کو علم نہ تھا کہ عثمان خیریت سے ہیں. پھر یہ بیعت کیوں لی گئی. یہ بیعت اس لیے لی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالنورین کی شہادت طے فرما دی تھی اور مسلمانوں پہ فرض کردیا تھا کہ شہادتِ عثمان کا بدلہ لینا ہے. قربان جاؤں اصحابِ رسول پہ کہ اپنی بیعت کو پورا کیا اور قاتلینِ عثمان کو چن چن کر مارا.

اس عثمان کے لیے کیا کہا جائے کہ جب مکہ والوں نے کہا کہ آپ مکہ آجائیں. یہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے تو کہا کہ یہ مکے کی حرمت کا خیال نہیں رکھیں گے. جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ شام تشریف لے آئیں تو کہا کہ اپنے آقا کا در کیسے چھوڑوں. سیدنا عثمان جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں شہادت کی بشارت دے گئے ہیں. وہ کیسے نہ اس درجے کو پاتے.
ایسے تھے میرے ذوالنورین💕

🌹🤲🏻🌱

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی