ایک نوجوان کہتاھے.......

*ایک نوجوان کہتاھے.......*

*میرا کسی بات پر  اپنے والد صاحب سے ایسا اختلاف ھوگیا کہ ھماری آوازیں اونچی ھوگئیں, میرے ھاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے سے میز پرپٹخے اور دھڑام سے دروازہ بندکرتے ھوئے اپنے کمرے میں آگیا.*

*بستر پر گرکر ھونے والی بحث پر ایسادماغ الجھا کہ نیند ھی اڑگئی.صبح یونیورسٹی گیا توبھی ذھن کل واقعے میں اٹکارھا.ندامت وخجالت کے مارےدوپہرتک صبر جواب دے گیا.جیب سے موبائل نکالا اور اباجی کو یوں میسج کیا کہ*

*میں نے کہاوت سن رکھی ھے کہ پاؤں کا تلوا پاؤں کے اوپری حصے سے زیادہ نرم ھوتا ھے.گھر آرھا ھوں قدم بوسی کرنے دیجئےگا تاکہ کہاوت کی تصدیق ھوسکے*

*میں جب گھر پہنچاتو اباجی صحن ھی میں کھڑے میرا ھی انتظار کررھےتھے.اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور کہا قدم بوسی کی تو میں تم کو اجازت نہیں دیتا  تاھم کہاوت بالکل سچی ھے کیونکہ جب تم چھوٹےسے تھے تو میں خود تمھارے قدم چوما کرتا تھا تو مجھے پاؤں کے تلوے اوپر والے حصے سے زیادہ ھی نرم لگتے تھے.یہ سن کر رونے کی باری اب میری تھی.*

*جن کے والدین حیات ھیں ان سے میری گذارش ھے کہ اپنے والدین کی قدرکیجئے.ورنہ وقت ھاتھ سے نکل جائے گا.*
.  قبر پر جاکر معافی مانگنے سے بہتر ھے انکی زندگی میں انکو راضی کریں.والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ھے. اللہ ھمارے نوجوانوں کو عمل کی توفیق بخشے.* 

*اور ھم جیسےجن کے والدین دنیاسے ایمان کے ساتھ رخصت ھوگئے.انکے درجات بلند ھوں*
شئیر ضرور کریں اپ کی وجہ سے کوئی اس پر عمل کر سکتا ہے۔ جزاک اللہ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی