بیویوں کو کچھ ذاتی خرچ لازمی دینا چاہیۓ

بیویوں کو کچھ ذاتی خرچ لازمی دینا چاہیۓ۔
 (پیر مولانا ذولفقار احمد نقشبندی مدظلہ) 
ایک بات اور ذہن میں رکھیۓ۔ شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ خاوند اپنے اخراجات میں جو مرضی معاملہ کرے مگر بیوی کے لیے کچھ ذاتی خرچ متعین کردینا چاہیۓ۔ دیکھیں کہ اس نے اپنے آپکو اور اپنی زندگی کو آپ کے حوالے کردیا، آپ کے لیۓ وقف کردیا، وہ خود تو کچھ کماتی نہیں، اسکی جملہ ضروریات آپ کے ذمہ ہیں۔
بحیثیت انسان اسکا بھی کہیں خرچ کرنے کا دل کرتا ہے۔ اپنی مرضی کی کوئ چیز خریدنے کا، اپنے والدین یا عزیز و اقارب کو کچھ دینے کا یا کچھ صدقہ خیرات کرنے کا۔ تو فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ خاوند کو بیوی کا کچھ ذاتی خرچ ہر مہینے کا متعین کردینا چاہیۓ۔
یہ خرچ کتنا ہونا چاہیۓ، یہ ہر بندہ اپنی حیثیت کے مطابق متعین کرے۔ مثلاً ایک بندہ سو ڈالر دے سکتا ہے۔ دوسرا پانچ سو ڈالر دے سکتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔ لیکن جب طے کرلیا کہ بیوی کا خرچ ہے تو یہ بیوی کو دیکر بھول جانا چاہیۓ فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوی کو ہر مہینے یہ خرچ دیکر بھول جاۓ۔ بیوی چاہے اپنی چیز بناۓ، اپنے بچوں پر خرچ کرے، اپنے خاوند کو تحفے دے، اپنے ماں باپ کو تحفے دے، کسی غریب کی مدد کرے، آخرت کے لیۓ مسجد بناۓ، مدرسے میں خرچ کرے، چاہے کچھ بھی کرے، خاوند بیوی سے کچھ نا پوچھے تاکہ بیوی کو اختیار ہو کہ وہ اپنی مرضی سے کوئ ایسا عمل کرسکے۔
(میاں بیوی کا اسلام)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی