حقیقی اسلامی انقلاب اور تبدیلی کا بنیادی محور' معرکہ بدر

حقیقی اسلامی انقلاب اور تبدیلی کا بنیادی محور' معرکہ بدر


جس ملک کا  وزیراعظم توشہ خانے کی گھڑی بھی بیچ کھائے … سوچتا ہوں اس ملک کی سیاست پر لکھوں بھی تو کیا لکھوں؟ انقلابی لیڈر اور ''آزادی'' کے نعرے '۔۔۔ کوئی بنی گالہ محل کے ''انقلابی'' کو بتائے کہ پونے چار سال ''ریاست مدینہ'' اور اب ''آزادی'' کے نعرے۔۔۔' کیا ''غلام'' پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے وعدے اور دعوے محض دھوکا تھے؟ سولات بہت' لکھنے کیلئے بھی بہت کچھ' لیکن چھوڑیئے دل جلانے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔ کہ ''روح'' کو سرشار کرنے کے لئے ریاست مدینہ کے بانی امام المجاہدین حضرت محمد کریمۖ کی قیادت میں لڑے جانے والے عظیم معرکہ بدر کو یاد کیا جائے … اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ حقیقی اسلامی انقلاب' مثبت تبدیلی اور آزادی کے لئے آقا و مولیٰۖ اور آپۖ کے صحابہ کرام نے کیا کیا کارنامے سرانجام دیئے تھے۔۔۔ 
بروز جمعہ 2 ہجری 17رمضان المبارک کو۔۔۔ حق و باطل  کا یہ میدان کار زار گرم ہوا' حضرت سعد بن معاذ نے ایک ٹیلے پر سائبان سا بنا دیا، حضرت ابوبکر آپۖ کے ساتھ۔۔۔ حضرت سعد دروازے پر پہرہ دے رہے تھے، جنگ سے پہلی رات آپۖ نے پوری دعاؤں میں گزاری مولانا شبلی لکھتے ہیں:
''یہ عجیب منظر تھا اتنی بڑی وسیع دنیا میں ۔۔۔توحید کی قیمت صرف چند۔۔۔ جانوں پر منحصر تھی' آنحضرت ۖ پر سخت خضوع کی۔۔۔ حالت طاری تھی، دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے۔۔۔ خدایا تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے آج پورا کر، محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر پڑتی تھی۔۔۔ اور آپۖ کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔۔۔ کبھی سجدے میں گرتے تھے اور فرماتے تھے کہ خدایا اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے۔۔۔ تو پھر تو قیامت تک نہ کوئی تیرا نام لینے والا باقی نہیں رہے گا''۔
صبح ہی صبح صف بندی فرمانا شروع کی۔۔۔ آپۖ کے دست مبارک میں تیر تھا۔۔۔ اس سے صفیں سیدھی کرتے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے گئے۔۔۔ جو آگے تھا اسے پیچھے کرتے اور جو پیچھے تھا اسے آگے کرتے اس موقع پر حضرت سواد بن غزیہ صف میں آگے بڑھے۔۔۔ ہوئے تھے، حضورۖ نے تیر سے ا ن کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا،  حضرت سواد برابر ہو جاؤ، سواد نے عرض کیا یا رسول اﷲ آپۖ نے مجھے تکلیف دی۔۔۔ آپۖ کو اﷲ نے حق و عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔۔۔ مجھے بدلہ لینے دیجئے قربان جائیں امام عدل و انصافۖ پر آپۖ نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھا دیا ۔۔۔اور فرمایا سواد بدلہ لے لو، سواد عاشقِ بے قرار کی طرح آگے بڑھے، اور آپۖ کے بطن مبارک کو چوم لیا، آپۖ نے پوچھا یہ کیا عرض کرنے لگے جنگ کا معاملہ ہے… شاید یہ آخری ملاقات ہو، جی چاہا کہ آپ کی جلد مبارک سے میری جلد مس ہو جائے، آنحضرت ۖ نے دعائے خیر دی صف بندی کرنے کے بعد آپۖ سائبان میں تشریف لے گئے اور دعا میں مصروف ہو گئے۔۔۔
اب جنگ کا معرکہ شروع ہوا ، دستور کے مطابق پہلے شیبہ پھر اسکا بھائی عتبہ اور اسکا بیٹا ولید میدان میں نکلے۔۔۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت عبدالرحمان بن عوف، معوذ   'معاذ اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ۔۔۔  مقابلے کیلئے اٹھے…مگر آنحضرت ۖ نے انہیں روک دیا اور اپنے خاندان میں سے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث کو بھیجا، عتبہ شیبہ ولید تینوں مارے گئے۔۔۔ لیکن ادھر سے عبیدہ  شدید زخمی ہوئے۔۔۔
حضرت علی انہیں کندھے پر اٹھا کر لائے، مدینہ منورہ واپسی پر راستے ہی میں مقام صفراء میں وفات پائی، قریش میں سے عبیدہ بن سعید بن العاص لوہے میں ڈوبا ہوا نکلا، صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں، ادھر سے حضرت زبیر بن العوام نے تاک کر برچھا ٹھیک آنکھوں پر مارا... عبید گرا اور ختم ہو گیا، پھر عام لڑائی شروع ہوگئی ، قریش مکہ کے کئی بڑے بڑے ستون گر گئے، معوذ اور معاذ ننھے منے بچوں نے... حضرت عبدالرحمن بن عوف سے پوچھا کہ ابو جہل کون ہے اور کہاں ہے… ہم نے سنا ہے کہ وہ ہمارے محبوب کو گالیاں دیتا ہے، آج اس کو ٹھکانے لگا کر دم لیں گے، ابو جہل اپنی صفیں درست کر رہا تھا.... انہوں نے اشارہ سے بتایا کہ... وہ ابو جہل ہے یہ دونوں بچے بازوں کی طرح جھپٹے اور صفوں کو چیرتے ہوئے ابو جہل کے پاس پہنچ گئے، جاتے ہی ابو جہل پر ایسا سخت وار کیا ....کہ ابو جہل گر گیا... اس کے بیٹے عکرمہ نے پیچھے سے معاذ کے بازو پر تلوار ماری... جس سے ہاتھ کٹ گیا، لیکن تسمہ لٹکا رہا حضرت معاذ نے کٹا ہوا ہاتھ پاؤں تلے دبا کر... تسمہ بھی الگ کر دیا ...کیونکہ وہ جنگ میں رکاوٹ بن رہا تھ...ا پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود آگے بڑھے اور ابوجہل کا سر کاٹ دیا۔
رسول اﷲ ۖ نے تاکید فرمائی تھی کہ... بعض لوگ بادل نخواستہ ساتھ آئے ہیں لہٰذا انہیں قتل نہ کیا جائے..  ان میں عباس اور ابوالجنتری بھی شامل تھے، صحابہ نے عین لڑائی کے موقع پر بھی ان احکام کی پوری پوری تعمیل کی... ابوالجنتری  اس لئے مارا گیا کہ وہ تنہا جان بخشی پر راضی نہ ہوا، اپنے دوست کو بھی بچانا چاہتا تھا... جس کا نام جنادہ بن ملیحہ تھا، صحابہ نے فرمایا  کہ… رسول اﷲ ۖ نے صرف تمہارے قتل سے منع کیا ہے۔۔۔ تمہارے ساتھی کو ہم نہیں چھوڑ سکتے، ابوالجنتری نے کہا یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔چنانچہ لڑائی ہوئی اور وہ بھی مارا گیا، امیہ بن خلف کو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بچانا چاہا ۔۔۔کیونکہ مکہ میں یہ ان کا دوست تھا ۔۔۔لیکن حضرت بلال اسے دیکھ کر خاموش نہ رہ سکے، انصار کو خبر کر دی ۔۔۔کہ  امیہ بن خلف ادھر ہے، چنانچہ صحابہ کرام بڑھے اور امیہ اور اسکا بیٹا بھی قتل ہو گئے۔
اس دوران حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار ٹوٹ گئی۔۔۔ حضور ۖ نے ایک درخت کی شاخ ان کو عنایت فرمائی۔۔۔ کہ اس سے لڑو… انہوں نے اسے لیکر حرکت دی تو ان کے ہاتھ میں وہ ایک نہایت ہی عمدہ تلوار بن گئی، اس سے وہ غزوات میں برابر لڑتے تھے ۔۔۔حتیٰ کہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں شہید ہو گئے،
لڑائی کے دوران آنحضرت ۖ مسلسل دعا میں مشغول رہے، شاہت الوجوہ پڑھ کر ریت ان کے چہروں پر پھینکی... جس سے کافروں کی آنکھیں چندھیا گئیں..۔ تھوڑی ہی دیر میں لڑائی کا رنگ بدل گیا اور مسلمانوں کی فتح نمایاں ہونے لگی، بڑے بڑے سرداران قریش مارے گئے، جن کی تعداد ستر تھی جن میں شیبہ, ابو جہل ابوالجنتری زمعہ بن الاسود ,امیہ بن خلف ، الحجاج کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اور ستر ہی قیدی بن کر آئے، جن میں آپۖ کے چچا حضرت عباس داماد ابوالعاص بن الربیع اور  عقیل بھی تھے,
آنحضرت ۖ نے فرمایا کوئی ابو جہل کی خبر لائے.... تھوڑی دیر میں اس کا سر آپۖ کے قدموں میں پیش کیا گیا …جب لڑائی ختم ہو گئی تو آپۖ کفار کی نعشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا... کہ کیسے برے رشتہ دار تھے تم... اپنے نبی کے' تم نے ہمیں جھٹلایا دوسروں نے ہماری تصدیق کی... 'تم نے ہمیں ذلیل کیا, دوسروں نے مدد کی, تم لوگوں نے مجھے میرے گھر اور وطن سے نکالا اور دوسروں نے مجھے پناہ دی, پھر آپ نے حکم دیا کہ یہ لاشیں ایک گڑھے میں ڈال دی جائیں ,جب ڈال دی گئیں تو پھر آپۖ نے اس گڑھے پر کھڑے ہو کر فرمایا.... اے عتبہ اے شیبہ ,اے فلاں اے فلاں, کیا تم نے اپنے رب کے قول کو سچا پایا، ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو ٹھیک ٹھیک سچ پایا۔
MARWAT TECHS

Hi Greetings! thanks for reaching here, We are so delighted to welcome you on board. Your intelligence and energy make you an asset to your family and love ones.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی