سچائی کی برکت

*(سچائی کی برکت)*

کسی علاقے میں ایک وکیل صاحب تھے ، عدالت میں لوگوں کا کیس لڑتے تھے اور کیس جیتنے کے لیے خوب جھوٹ سچ بولتے تھے اور ناجائز طریقے سے پیسے کماتے تھے ؛ لیکن کچھ دنوں کے بعد وکیل صاحب کا تعلق اللہ تعالی کے نیک بندوں کے ساتھ ہوگیا ، تو اللہ تعالی نے ان کے دل کی حالت بدل دی ۔ کہنے لگے : میں آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوں گا ، صرف سچے کیس ہی لڑوں گا ، میرا اللہ مجھے سچ بولنے پر ہی روزی دےگا، 
*لوگوں نے کہا : سچ بولنے سے وکالت نہیں چلے گی ، آپ کیس نہیں جیت پائیں گے ؛ جس کی وجہ سے آپ کی کمائی رُک جائے گی ۔ انہوں نے کہا : میری وکالت چلے یا نہ چلے ؛ مگر سچ ضرور چلے گا ، اب تو میں نے دل سے فیصلہ کر لیا ہے ۔*
پھر وکیل صاحب نے لوگوں سے بھی کہہ دیا کہ اگر آپ کے کیس جھوٹے ہیں ، تو میرے پاس نہ آئیں ؛ ورنہ اگر مجھے پتہ چل گیا ، تو میں آپ کی مخالفت کروں گا اور اگر آپ کے کیس سچے ہیں ، تو میں آپ کی ضرور مدد کروں گا اور آپ کی طرف سے کیس لڑوں گا ۔ لوگوں نے ان کے پاس آنا بند کر دیا اور ان کا دفتر خالی رہنے لگا ، اسی حالت میں کئ مہینے گزر گئے ؛ بلکہ اِسی طرح ایک سال گزر گیا ؛ مگر ان کے پاس ایک بھی کیس نہیں آیا ، ایک دفعہ ججو کے سامنے چرچا ہوا کہ فلاں وکیل جھوٹے مقدمے نہیں لیتا ، غربت برداشت کر رہا ہے ؛ لیکن پھر بھی کہتا ہے کہ ”مر جاٶں گا ؛ مگر جھوٹ نہیں بولوں گا“
*سبھی جج اس کی اس بات سے بہت متاثر ہوئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت بڑھتی گئ ۔*
دوسرا سال شروع ہوا ، تو اللہ تعالی کے نیک بندوں نے سوچا کہ فلاں وکیل سچے مقدمے ہی لڑتا ہے اور ہمارے مقدمے سچے ہیں ، چلو ان کے پاس چلتے ہیں ، لوگ آنے شروع ہو گئے ، جو بھی آتا سچا مقدمہ لے کر آتا ۔ وکیل صاحب مقدمہ لے کر عدالت میں جاتے اور ان کے حق میں فیصلہ ہو جاتا ۔ چند دنوں کے بعد ججو نے سوچا کہ یہ وکیل جو بھی مقدمے لاتا ہے وہ سچے ہوتے ہیں ؛ اس لیے اب اس سے ذیادہ سوال نہیں کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جب وکیل صاحب مقدمہ لے کر جاتے ، تو چند منٹ کے اندر اندر ان کے حق میں فیصلہ ہو جاتا 
اب بڑے بڑے امیروں نے بھی سچے کیس اس وکیل کے پاس لانے شروع کر دیے ، جس سے ان کی کمائی بھی خوب ہونے لگی 
*جب وکیل صاحب جھوٹ بولتے تھے ، تو ایک مہینے میں بیس ہزار روپے کماتے تھے اور جب سچ بولنا شروع کیا ، تو ایک ماہ میں چالیس ہزار روپے کمانے لگے ۔ سچ بولنے پر اللہ تعالی نے دوگنا رزق دے دیا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد چند وکیلوں کا جج بننے کے لیے امتحان ہوا ، تو اس وکیل صاحب کو اس میں کامیابی ملی اور وہ جج بن گئے ۔*
 وکیل صاحب نے جب سچ بولنا شروع کیا ، تو اللہ تعالی نے ان کا رزق دوگنا کر دیا اور پھر انہیں جج کی کرسی پر بٹھا دیا، 
اگر جھوٹ بولتے رہتے تو وہی بیس ہزار پر رکے رہتے، سچ ہے کہ سچ میں ہی نجات ہے


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی